ہسپتال میں کِسی مریض کے recusitation یعنی مرتے ہوّۓ شخص کو مصنوُعی طریقہ سے جانبر کرنے کی کوشِش کرنے کا سب سے دِلچسپ اور عجیب و غریب واقعہ جو میرے عِلم میں لایا گیا ، وُہ جیفرسن کاؤنٹی کے بدنام ِ زمانہ چور جارج لینکس ؔ کا ہے ۔ وُہ اپنی سزا کی دوُسری ٹرم پوُری کر رہا تھا ۔ پہلی بار اُسے سیجو ِّک ؔ کاؤنٹی نے گھوڑے چُرانے پر جیل بھیجا تھا ۔
ٔ۱۸۸۷ ٔ تا ۱۸۸۸ ٔ کے درمیان تک وہ کوئلے کی کانوں میں کام کرتا رہا تھا ۔ جِس جگہ وُہ محنت و مُشقت کرتا وُہ جگہ اُسے بہت خطرناک محسوُس ہوتی ۔ اُس نے صُورتِ حال کی گھمبیرتا کو دیکھتے ہوُۓ اپنے افسرِبالا سے اپنے خدشات کا ذِکر کیا ۔ متعلقہ افسر نے اُسکے کام کی جگہ کا جائزہ لینے کے بعد اپنا فیصلہ سُناتے ہوّۓ لینکسؔ کو واپس کام پر جانے کا حُکم دِیا ۔ مُجرم حُکم کی تعمیل کرتے ہوُۓ واپس اپنے کام میں لگ گیا ۔ اُسے کام کرتے ہوُۓ ابھی ایک گھنٹہ ہی گُزرا تھا کہ کان کی چھت گِر گئی اور وُہ پتھروں کے بوجھ کے نیچے دو گھنٹوں تک دبا رہا ۔
جب اُسکے ساتھیِوں نے اُسے شام کے کھانے پر نہ دیکھا تو فوراً اُسکی کھوج شُروع کر دی گئی ۔ آخِر کار وُہ پتھروں اور ملبے کے نیچے پڑا مِلا ۔ بدن اور سانسوں کا رِشتہ ٹُوٹ چُکا تھا ۔ اُسے اوُپر لایا گیا ۔ طِبی مُعائنہ کے بعد جیل کے ڈاکٹر نے اُسے مُردہ قرار دے دِیا ۔ اُسکی لاش ہسپتال لے جائی گئی جہاں اُسے صاف کرنے کے بعد تدفین کے لِۓ تیا ر کِیا گیا ۔ اُسکا کفن تیار کر کے ہسپتال لایا گیا ۔ ہسپتال کا چیپلِن آیا اور ضروری مذہبی رسوُم کی ادائگی کے بعد دو قیدیوں کو لکڑی کے تختہ پر پڑی لاش کو اُٹھا کر دوُسرے کمرے میں لے جا کر وہاں پڑے ہوُۓ کفن میں رکھنے کو کہا گیا ۔ دونوں نے حُکم کی تعمیل کی اور ایک نے کفن میں لِپٹی لاش کو سر کی طرف سے اور دوُسرے نے پاؤں کی طرف سے اُٹھایا اور دوُسرے کمرے کی طرف چل پڑے ۔ پھِر اچانک لاش کے سر کی طرف والے آدمی کا پاؤں ذرا سا فرش پر پڑے ہوّۓ ایک اُگالدان سے ٹکرایا اور اُسکے قدم لڑاکھڑا گئے اور وُہ اپنا
توازن کھو بیٹھا ۔ نتیجتاً اُسکی طرف سے لاش نیچے گِر گئی اور مرے ہوُۓ شخص کا سر فرش سے ٹکرا گیا ۔ چند لوگ جو وہاں پر موجوُد تھے اُنکی حیرت کی اِنتہا نہ رہی جب اُنہوں نے ایک گہری لیکن دبی دبی سی آہ سُنی ۔ پھِر یکایک نہ صِرف یہ کہ مرنے والے آدمی کی آنکھیں کھلیں بلکہ زِندگی کے آثار بھی دِکھائی دینے لگے ۔ فوراً ڈاکٹر کو بُلایا گیا اور اِس سے پہلے کہ ڈاکٹر پُہنچتا تقریباً آدھے گھنٹے بعد مرنے والے آدمی نے پانی کی درخواست کی اور جب ڈاکٹر پُہنچا تو وُہ ایک کپ میں پانی پی رہا تھا ۔
تابوُت کمرے سے فوراً نِکال دِیا گیا اور بعد میں مرنے والے کِسی اور مُجرم کو اُس میں دفنایا گیا ۔ اُسکے بدن سے کفن اُتار دِیا گیا اور ایک بار پھِر اُسے قیدیوں کے کپڑے پہنا دِۓ گئے ۔ اُسکے جسمانی معائنہ کے بعد دیکھا گیا کہ کان میں ہونے والے حادثے میں اُسکی ایک ٹانگ دو جگہوں سے ٹو ٹ چُکی تھی ۔ اِسکے علاوہ اُسکے بدن پر بہت زیادہ چوٹوں کے نِشان تھے ۔ کوئی چھ ماہ ہسپتال میں گُزارنے کے بعد اُسے واپس کام پر جانا پڑا ۔
اِس قیدی کے بظاہر مرنے کے بعد جو تجربہ اُسے حاصِل ہوا اُسکا احوال مُجھے ایک اور قیدی کی زبانی معلوُم ہوُا ۔ یہ کہانی سُننے کے بعد میرا دِل تجًسس سے بھر گیا اور مَیں نے یہ سارا واقعہ لینکسؔ کی اپنی زبان سے سُننے کی ٹھان لی ۔ کئی ماہ گُزر گئے لیکن لینکسؔ سے میری مُلاقات کی کوئی صوُرتِحال نہ پیدا ہو سکی ۔ لیکن بلآخِر وُہ دِن آ ہی گیا ۔ کانکنوں کے ساتھ کام سے الگ ہونے کے بعد مُجھے جیل کے ایک افسر نے سالانہ رپورٹ تیا ر کرنے کا کہا ۔ ایک دِن جب میں دفتر میں ایک اور آفیسسر کے ساتھ بیٹھا اِس مُجرم کے دوبارہ زِندگی پانے کے تجربہ پر بات چیت کر رہا تھا تو یہی شخص دروازے کے سامنے سے گُزرا ۔ آفیسسر نے اِشارہ کرتے ہوُۓ مُجھے بتایا کہ یہ وُہی قیدی ہے ۔ زیادہ دیر نہ گُزری کہ میَں نے اُسے ایک کاغذ پر میرے ساتھ مُلاقات کرنے کا نوٹ لِکھ کر بھیجا ۔ میَں نے اُسے اپنے کام کی جگہ پر آنے کے لِۓ کہا ۔ وُہ مُجھے مِلنے آیا اور یہیں سے مُجھے اُسے ذاتی حیثیت میں جاننے کا موقع مِلا ۔ اِسکے بعد مُجھے اُسکی اپنی زبان سے اُسکی حیرت انگیز کہانی سُننے کا موقع بھی مُیسر ہوُا ۔ میرے سامنے کم و بیش تیس برس کا ایک نوجوان آدمی تھا جو ایک جرائم پیشہ مُجرم بن چُکا تھا ۔ وُہ اچھا خاصا پڑھا لِکھا شخص دِکھائی دیتا تھا اور فِطرتاً نہائت ہی ہوشیار و سمجھدار بھی ۔
ٓ
اُسکی کہانی کا سب سے حیرت انگیز حِصہ وُہ ہے جب وُہ ’’مر‘‘ چُکا تھا ۔ ایک شارٹ ہینڈ رِپورٹر ہوتے
ہوُۓ میں نے جیسے جیسے اُسکی کہانی سُنی ویسے ویسے ہی لِکھ لی ۔
اُس نے اپنی کہانی کُچھ یوُں بیان کرنا شُروع کی
’’ اُس روز مُجھے صُبح سے ہی کُچھ ایسا محسوُس ہو رہا تھا کہ آج کُچھ بُہت ہی بُرا ہونے والا ہے ۔ بےتابی کا یہ عالم تھا کہ میَں اپنے باس کے پاس گیا اور اُس سے اپنے احساسات اور خدشات کا اِظہار کرتے ہوُۓ درخواست کی کہ وُہ کوئلے کی کان میں میرے کام والی جگہ پر آۓ اور وہاں کی صُورتِحال کا جائزہ لے ۔ اُس نے اُس جگہ کا بظاہر بخُوبی جائزہ لِیا اور یہ کہہ کر کہ خطرے کی کوئی بات نہیں اور یہ کہ میَں خواہ مخواہ ہی اعتراض کر رہا ہوں مُجھے دوبارہ کام پر لگنے کا حُکم دے کر چل دِیا ۔
میَں دوبارہ اپنے کام میں لگ گیا ۔ مُجھے کوئلہ کھودتے ہوُۓ ابھی ایک گھنٹہ ہی گُزرا تھا کہ کان میں اچانک اندھیرا چھا گیا ۔ پھِر مُجھے ایسا لگا جیسے لوہے کا ایک بہت بڑا پھاٹک میرے سامنے کھُلا ہے اور میَں اُس میں داخِل ہو کر گُزر گیا ہوُں ۔ تب ہی میرے گُمان میں آیا کہ میَں تو درحقیقت مر چُکا ہوں اور اب کِسی دوُسری دُنیا میں ہوُں ۔ میَں نہ تو کُچھ دیکھ سکتا تھا اور نہ ہی کُوئی آواز سُن سکتا تھا ۔ نہ جانے کیوں ، لیکِن میَں اُس دروازے سے آگے بڑھا اور کُچھ دیر تک چلتا گیا اور بلاآخِر ایک وسیع و عریض دریا کے کِنارے تک پُہنچ گیا ۔ یہاں نہ تاریکی تھی اور نہ ہی روشنی ۔ روشنی صِرف اِتنی تھی جِتنی ایک تاروں بھری رات میں ہوتی ہے ۔ مُجھے اُس دریا کے ساحِل پر کھڑے کُچھ زیادہ دیر نہیں ہوُئی تھی کہ میَں نے دریا میں پتوار چلنے کی ہلکی ہلکی آواز سُنی ۔ جلد ہی ایک شخص کشتی چلاتا ہُوا اُس جگہ پر آکر رُک گیا جہاں میَں کھڑا تھا ۔
میَں کُچھ بھی کہنے کے قابل نہ تھا ۔ اُس شخص نے ایک لمحہ میری طرف دیکھا اور کہا ۔ میَں تُمہارے لِۓ ہی آیا ہوُں ، میرے ساتھ کشتی میں بیٹھو اور دریا کے پار چلو ۔ میَں نے اُسکے حُکم کی تعمیل کی ۔ اِس دوران ہمارے درمیان کوئی مکالمہ نہیں ہوُا ۔ میَںنے بہت چاہا کہ اُس سے پوُچھوں کہ وُہ کون ہے اور یہ کہ میَں کہاں ہوُں ؟ مُجھے یوُں محسوُس ہوُا جیسے میری زُبان حلق کے ساتھ چسپاں ہو گئی ہے اور
میَں ایک لفظ بھی زُباں سے ادا نہیں کر پا رہا تھا ۔ آخِر کار ہم دریا کے پار پُہنچ گئے ۔ میَں کشتی سے اُترا لیکِن میرے ساتھ آنے والا شخص میری آنکھوں سے اوجھل ہو چُکا تھا ۔
یوُں اکیلا رہ جانے کے بعد مُجھے معلوُم ہوُا کہ مُجھے آگے کیا کرنا ہے ۔ میَں نے اپنے سامنے نِگاہ کی اور دیکھا کہ میرے سامنے دو راستے ہیں جو ایک تاریک وادی میں سے گُزرتے ہیں ۔ اِن میں سے ایک راستہ کافی وسیع تھا اور یوں لگتا تھا کہ اِس پر بہت سے لوگ سفر کر چُکے ہیں ۔ دوُسرا راستہ تنگ تھا اور یہ مخالف سِمت میں جاتا تھا ۔ بِلا کِسی تدبُر کے میَں نے وسیع و عریض راستہ چُن لِیا ۔ میَں ابھی زیادہ دوُر نہیں گیا تھا کہ راستہ تاریک سے تاریک تر ہوتا چلا گیا ۔ تاہم وقفے وقفے سے دوُر سے ایک روشنی چمکتی اور یوُں میری راہ میرے لِۓ روشن ہو جاتی ۔
پھِر مُجھے ایک ایسی ہستی مِلی جِس کے وجوُد کا بیان میرے بس سے باہر ہے ۔ اُسکے دہشتناک حُلیۓ کا میَں صِرف ہلکا سا خاکہ ہی کھینچ سکتا ہوُں ۔ یوُں تو وُہ ایک آدمی جیسا ہی دِکھائی دیتا تھا لیکن ایک عام آدمی سے کہیں زیادہ جسامت کا مالِک تھا ۔ ایسی بڑی جسامت کہ میَں نے پہلے کبھی نہ دیکھی تھی ۔ اُسکا قد کم و بیش دس فٹ کا تھا ۔ اُسکی پُشت پر بڑے بڑے پر تھے ۔ رنگت میں وُہ اُس کوئلے سے بھی زیادہ سیاہ تھا جو میں کانوں میں کھودا کرتا تھا ۔ نیِز ، وُہ مکمل طور پر برہنہ تھا ۔ اُسکے ہاتھ میں ایک نیزہ تھا جِسکے ہتّہ کی لمبائی تقریباً پندرہ فٹ ہوگی ۔ اُسکی آنکھیں آگ کے گولوں کی مانند روشن تھیں ۔ اُسکے دانت موتیوں جیسے سفید جو ایک ایک اِنچ لمبے تھے ۔ اُسکی ناک ، اگر آپ اُسے ناک کہنا چاہیں ، تو یہ بہت بڑی ، چوڑی اور ِچِپٹی تھی ۔ اُسکے بال بڑے ہی بے رنگ اور اُلجھے ہوُۓ اور بھاری تھے ۔ بال اُسکے بھاری مضبوُط کندھوں پر گِر رہے تھے ۔ اُسکی آواز ، جہاں تک میَں یاد کر سکتا ہوُں ، چِڑیا گھر میں دھاڑتے ہوّۓ ایک شیر کی مانند تھی ۔
دوُر سے بار بار چمکنے والی روشنی میں میَں نے اُسے پہلی بار دیکھا ۔ اُسے دیکھ کر میَں بیدِمجنوں کے زرد پتےّ کی طرح لرزا ۔ اُس نے اپنے ہاتھ میں اپنا نیزہ اِس طرح تانا ہوُا تھا جیسے وُہ کِسی لمحہ بھی اِسے مُجھ پر داغ دے گا ۔ میَں اچانک رُک گیا ۔ اپنی خوفناک آواز میں اُس نے مُجھے یہ کہہ کر کہ اُسے میری
راہنُمائی کے لِۓ بھیجا گیا ہے ۔ اُس نے مُجھے اپنے پیچھے آنے کے لِۓ کہا اور میَں اُس کے پیچھے پیچھے چل دِیا ۔ میَں اور کر بھی کیا سکتا تھا ۔ کُچھ فاصلہ چلنے کے بعد ہمارے سامنے اچانک ایک پہاڑ نموُدار ہو ا ۔ پہاڑ کا وُہ حِصّہ جِس کا رُخ ہماری طرف تھا ، بالکل عموُدی دِکھائی دے رہا تھا گویا پہاڑ دو حِصوں میں کٹا ہوا تھا اور ایک حِصّہ الگ کر دیا گیا تھا ۔ اِس عموُدی دیوار پر میَں یہ الفاظ لِکھے ہوّۓ واضع دیکھ رہا تھا ۔ ’’ یہ دوزخ ہے ‘‘ میرے راہنُما نے اپنے نیزے کے دستے سے اِس عموُدی دیوار پر تین بار ٹھوکر ماری اور پھِر ہمارے سامنے ایک بُہت وسیع و عریض پھاٹک کھُل گیا اور ہم اُس میں سے گُزر گئے ۔ اِس کے بعد مُجھے اُس پہاڑ میں سے چیرتے ہوُۓ ایک راستے پر گامزن کر دِیا گیا ۔
کُچھ دیر تک تو ہم گویا مِصر کی سی تاریکی میں سے گُزرتے رہے ۔ میَں ا پنے راہبر کے بھاری بھرکم قدموں کی آواز کی پیروی کرتا ہوُا چلتا گیا ۔ تمام راستہ میں مُجھے ایسی گہری سِسکنے کی درد بھری آوازیں سُنائی دیتی رہیں جیسے کہ کوئی مرنے کے قریب ہو ۔ کُچھ دوُر آگے بڑھا تو یہ رونے اور کراہنے کی آوازیں اور شِدت سے سُنائی دینے لگیں ۔ اب میَں صاف سُن سکتا تھا کہ یہ لوگ پانی ، پانی ، پانی کہہ کر پُکار رہے تھے ۔ پھِر ایک اور گُزرگاہ پار کرنے کے بعد مُجھے یہی آوازیں یعنی ’’ پانی ، پانی ، پانی ‘‘ لاکھوں کی تعداد میں سُنائی دینے لگیں ۔ میرے راہبر کی دستک پر ایک اور دیو ہیکل پھاٹک کھُلا اور میَں نے دیکھا کہ اب ہم اُس پہاڑ کی گُزر گا ہ سے باہر آ چُکے ہیں ۔ اب میرے سامنے ایک وسیع میدان تھا ۔
اِس مقام پر میرا رہنُما مُجھے چھوڑ کر دوُسری بہکی اور گُمراہ روُحوں کو اِسی منزل پر لانے کے لِۓ رُخصت ہو گیا ۔ میَں اِسی میدان میں کُچھ دیر ٹھہرا رہا ۔ اِس کے بعد ایک اور مخلوُق جو کہ کُچھ کُچھ پہلے جیسی ہی تھی میرے نزدیک آئی ۔ اِس اور پہلی مخلوُق میں فرق صِرف یہ تھا کہ اِس کے ہاتھ میں نیزے کی بجاۓ ایک بھاری بھرکم تلوار تھی ۔ یہ ہستی مُجھے مُجھ پر آنے والے عذاب کی خبر دینے کے لِۓ آئی تھی ۔ یہ دیو ہیکل وجوُد میرے ساتھ اِس قدر خوفناک آواز میں مُخاطِب ہُوا کہ میں اِسکی دہشت سے لرز گیا ۔ ’’ تُم دوزخ میں ہو ‘‘ اُس نے مُجھے مُطلع کِیا ۔ ’’ تُمہاری تما م اُمیدیں معدوُم ہو چُکی ہیں ۔ پہاڑوں کی راہ گُزر میں سے چلتے وقت تُم نے نہائت ہی کرب و اذیت میں دوُبی ہوئی آوازیں تو سُنی ہونگی جو شدید
پیاس کے باعث زُبانیں حلق میں چِپک جانے کے سبب سے درد میں کراہ رہیں تھیں ۔ وہاں وُہ راستہ سیدھا آگ کی جھیل میں جاتا ہے ۔ جلد یہی ٹھِکانہ تُمہارا مُقدر بننے جا رہا ہے ۔ لیکِن اِس سے پہلے تُم اپنی ابدی اذیت کے ہولناک ٹھکانے تک پُہنچا دِۓ جاؤ تُمہیں کُچھ دیر اِس کھُلے میدان میں رہنے کی مُہلت دی جارہی ہے تاکہ تُم اُس آسمانی مقام کا دوُر ہی سے نظارہ کر سکو جو تُم کھو چُکے ہو ۔ یہ موقعہ تمام گُمراہ روُحوں کو دِیا جاتا ہے تاکہ اُنہیں آخری بار احساس ہو کہ اُنہوں نے درحقیقت کیا کھویا ہے اور اِسکے بدلے اُنہوں نے اپنے لِۓ کیا اندہوناک عذاب کا اِنتخاب کِیا ہے ۔ ‘‘
اِسکے بعد میَں وہاں اکیلا ہی رہ گیا ۔ یہ وُہ درد میں کراہتی ہوئی آوازیں تھیں یا سارے منظر کا دہشتناک تاثر ، لیکِن میَں تو خوف سے بالکل ساکِت و بے حِس ہو کر رہ گیا ۔ مُجھے اپنا کُل وجوُد بالکل لاغر و ناتواں محسوُس ہونے لگا ۔ میری سکّت جاتی رہی ۔ میرے ہاتھ پاؤں تو جیسے جواب ہی دے گۓ ۔ میرا سارا وجوُد بے جان ہو کر زمیں بوس ہو گیا ۔ میَں نِڈھال اور بے سُدھ سا ہو گیا ، جیسے آدھا سویا آدھا جاگا ہوُں ۔ جیسے میَں کوئی خواب دیکھ رہا ہوں ۔ میَں نے آنکھیں اُٹھا کر دوُر نِگاہ کی تو میَں نے وُہ خوُبصوُرت شہر دیکھا جِس کا ذِکر ہم بائبل مُقدس میں پڑھتے ہیں ۔ کیا ہی خوُشنُما تھیں اُسکی سنگِ مرمر سے بنی دیواریں ۔ دوُر فاصلے پر خوُبصورت لہلاتے ہوُۓ پھوُلوں سے سجے وسیع میدان ۔ میَں نے زندگی کا دریا اور شیشے کا سمندر بھی دیکھا ۔ فرِشتوں کا ایک جمِ غفیر شہر کے پھاٹکوں میں سے سحر انگیز آوازوں میں گاتا ہوُا گُزرتا ۔ اِسی گروہ میں میَں نے اپنی ماں کو بھی دیکھا ۔ میری ماں میری بدکاریوں کے غم میں دِلبرداشتہ ہو کر اِنتقال کر گئیں تھیں ۔ مُجھے یوُں محسوُس ہوُا جیسے وُہ مُجھے اِشارہ کر کے اپنی طرف بُلا رہی ہیں لیکن میَں اپنی جگہ سے بالکل بھی ہِل نہ سکا ۔ مُجھے یوُں لگا جیسے میرے پاؤں ایک بھاری بوجھ کے نیچے دبے ہوُۓ ہیں ۔ پھِر میَں نے اُن پھوُلوں کی مسحوُر کُن مہک کے جھونکے اپنی طرف آتے ہوُۓ محسوُس کِۓ اور اب میَں اُن پھوُلوں کو اور زیادہ واضح طور پر دیکھ سکتا تھا ۔ نیز ، فرِشتوں کی آوازیں اب پہلے سے بھی زیادہ صاف سُنائی دے رہی تھیں ۔ میَں نے چاہا کاش میَں بھی اُس مُبارک گروہ کا حِصّہ ہوتا ۔
میَں آسمانی مُسرت و لذت کا یہ پیالہ پی ہی رہا تھا کہ کِسی نے میرے ہاتھ سے پیالہ لے لیا اور نیچے پٹخ کر پاش پاش کر دیا ۔ میَں گویا نیند کی سی اِس کیفیت سے جاگا ۔ سیاہ اور تاریک نگری کے میرے ایک
ساتھی نے مُجھے جھنجوڑا اور کہا کہ اب ہوش میں آ جاؤ کیونکہ اب تُمہاری اصل منزل تُمہارا اِنتظار کر
رہی ہے ۔ اُسکے حُکم کے مُطابِق میَں اُسکے پیچھے پیچھے چل دیا ۔ بہت سنبھلتے سنبھلتے میَں ایک بار پھِر اپنے راہبر کے پیچھے چلتا چلتا اُسی تاریک گُزر گاہ میں داخِل ہو گیا ۔ اندھیری راہ گُزر میں ایک دروازے سے دوسرے دروازے میں داخِل ہونے کے بعد میَں کیا دیکھتا ہوُں کہ اب میرے سامنے وُہی آگ کی جھیل ہے ۔
اب میرے آگے ، میری آنکھوں کے سامنے ، حدِ نِگاہ تک آگ اور گندھک کی ایک حقیقی جھیل تھی ۔ اِس جھیل کی خوفناک لہریں ایک دوُسرے کے ساتھ ٹکرا کر کُچھ یوں بلند ہوتیں جیسے سمندر میں لہریں طُوفان میں بلُندی پر اُٹھتی ہیں ۔ میَں نے دیکھا کہ اِنسان اِس دہکتی جھیل کی لہروں سے کُچھ لمحوں کے لِۓ اوجِ سطح پر نمودار ہوتے لیکن پھِر لہروں کے نیچے گہرائی میں چلے جاتے ۔ جب وہ لہروں کی سطح پر آتے اُنکے مُنہ سے راست و عادل خُدا کے خِلاف نہائت ہی نفرت انگیز اور حقارت سے بھرے کلمات نِکلتے ۔ نیز ، پانی کے لِۓ اُنکی قابل ِ رحم اِلتجائیں دِل کو چیر کر رکھ دیتیں ۔ آگ کی یہ وسیع و عریض جھیل برگشتہ اور سرکش روُحوں کی آہوں ، سِسکیوں اور درد بھری آہ و پُکار سے بار بار گوُنج رہی تھی ۔
پھِر میری نظر اُس دروازے پر پڑی جِس میں سے میَں گُزر کر آیا تھا ۔ میَں نے وہاں آویزاں یہ تحریر پڑھی ۔ ’’ یہ تمہار ا کبھی نہ ختم ہونے والا ابدی مُقدر ہے ۔ ‘‘ مُجھے یوُں محسوُس ہوُا جیسے میرے پاؤں تلے سے زمین کھِسک گئی اور میَں آگ کی اُس جھیل کی گہرائی میں ڈُوبنے لگا ۔ مُجھے پیاس کی ایسی شِدت محسوُس ہوئی کہ بیان سے باہِر ۔ میَں پانی پانی کہہ کر پُکا ر رہا تھا کہ پھِر اچانک میری آنکھ دوبارہ ہسپتال کی جیل میں کھُلی ۔
میَں نے اپنا یہ تجربہ کبھی کِسی سے بیان نہیں کِیا ، اِس ڈر سے کہ کہیں جیل کے افسران مُجھے پاگل سمجھ کر جیل کے مخصوص کمرے میں نہ بند کر دیں ۔ میَں اِس خوفناک تجربہ میں سے گُزرا تو ضروُر لیکن میَں مُطمئن ہوُں کہ زِندہ ہوں ۔ لیکن میَں جان گیا کہ دوزخ اور آسمانی بہِشت کا وجوُد فی الحقیقت ہے ۔ اور وُہ دوزخ دراصل وُہی پُرانہ روائتی دوزخ ہے جِس کا ذِکر بائبل میں پایا جاتا ہے ۔ تاہم ایک بات یقینی ہے ، میَں دوبارہ کبھی بھی وہاں جانے کا نہیں ۔
جیسے ہی میَں نے ہسپتال میں آنکھیں کھولیں ، میَں نے فیصلہ کر لِیا کہ میَں اپنا دِل خُدا کو دے رہا
ہوُں اور اب میَں ایک مسیحی کی حیثیت سے ہی جیوں گا اور مروُں گا ۔ گو کہ جہنم کے خوفناک مناظر میرے ذہن میں نقش ہو چُکے ہیں لیکِن اسکے ساتھ ساتھ آسمان کے خوُبصوُرت نظارے بھی مُجھے یاد دِلاتے ہیں کہ ایک دِن میَں اپنی پیاری ماں کو دوبارہ مِل سکوُں گا ۔ اُس خوُبصوُرت دریا کے ساحِل پر بیٹھنے کا شرف ، کھُلے میدانوں میں فرِشتوں کے ہمراہ سیر ، مہکدار پھُولوں سے ڈھکی وادیوں کے درمیان اور خُوشنُما پہاڑیوں پر چہل قدمی ، خُوبصورتی ایسی کی اِنسانی تصوارت سے ماورا ۔ نجات یافتہ روحوں کی آوازوں میں وُہ مسحوُرکُن گیت ، وُہ سب میرے لِۓ کافی ہیں کہ میَں اُس دُنیا وی زندگی سے جو میَں نے جیل جانے سے پہلے گُزاری تھی توبہ کروں اور ایک نیک مسیحی زِندگی اپناؤں ۔ میَں نے اپنے اُن تمام ساتھیوں کو خیرباد کہہ دِیا ہے جو کبھی جرائم میں میرے ساتھ تھے اور اب آزاد ہونے کے بعد میَں نیک اور بھلے لوگوں کی صحبت اِختیا ر کروُں گا ۔ ‘‘
ہم نے لینکسؔ کے ساتھ پیش آنے والے تجربہ کو بالکل اُسی طرح بیان کر دِیا ہے جیسے اُس نے سُنایا ۔ ہماری دُعا ہے کہ لینکسؔ کی گواہی بہت سی برگشتہ روُحوں کی توبہ اور اُنکے لِۓ ایک نئی زِندگی کے سفر کا باعث بن سکے ۔
اِنسان ایک حقیقی دوزخ کے وجوُد سے کیسے اِنکاری ہو سکتا ہے ؟ ہمارے پاس خُدا کا کلام ہے اور پھِر لینکسؔ کی کہانی جیسے سانحات ہمیں ایک حقیقی جہنم کی خبر دیتے ہیں ۔ بھائیو اور بہنو ، ذرا ٹھہرو اور حقائق کا سامنا کرو ۔ آپکی زِندگی کے ہر لمحے کا حساب کہیں لِکھا جا رہا ہے ۔ خُدا آپکو بچانا چاہتا ہے اور وُہ آپکے گُناہ مُعاف کر کے آپکو ابدی زِندگی دینا چاہتا ہے بشرطیکہ آپ اُس سے اپنے گُناہوں کی مُعافی مانگیں ۔ نجات صِرف گُناہوں کی مُعافی ہی سے مُمکِن ہے ۔ یہ تب ہی مُمکِن ہے جب آپ مسیحؔ کی قُربانی کو اپنے گُناہوں کے کفارہ کے طور پر قبوُل کریں گے ۔ جب آپ خُدا کی طرف سے مُعافی کا یہ تحفہ قبوُل کریں گے وُہ آپکے دِل کو اِطمینان اور سکوُن سے لبریز کر دے گا ۔ یوُں آپ نہ صِرف اِس زِندگی میں آزادی حاصِل کریں گے بلکہ آئند ہ زندگی میں آسمانی خُوشیوں سے لُطف اندوز ہو سکیں گے ۔ ورنہ دوزخ میں صِرف اڑتالیس گھنٹے ہی نہیں بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لِۓ اذیت ناک قیام کرنا پڑے گا ۔
دولت مند آدمی اور لعزرؔ ( لُوقاؔ ۱۶ باب ۱۹ تا ۳۱ آیات )
ایک دولت مند تھا جو ارغوانی اور مہین کپڑے پہنتا اور ہر روز خُوشی مناتا اور شان و شوکت سے رہتا تھا ۔ اور لعزرؔ نام ایک غریب ناسوُروں سے بھرا ہُوا اُس کے دروازہ پر ڈالا گیا تھا ۔ اُسے آرزوُ تھی کہ دولتمند کی میز سے گِرے ہوُۓ ٹُکڑوں سے اپنا پیٹ بھرے بلکہ کُتے بھی آکر اُسکے ناسوُر چاٹتے تھے ۔
اور ایسا ہوُا کہ وُہ غریب آدمی مر گیا اور فرِشتوں نے اُسے لے جا کر اِبرہام کی گود میں پُہنچا دِیا دولت مند بھی مُوا اور دفن ہوُا ۔ اُس نے عالمِ ارواح کے درمیان عذاب میں مُبتلا ہو کر اپنی آنکھیں اُٹھائیں اور ابرہام ؔ کو دوُر سے دیکھا اور اُسکی گود میں لعزر ؔ کو ۔ اور اُس نے پُکار کر کہا اَے باپ ابرہامؔ مُجھ پر رحم کر کے لعزرؔ کو بھیج کہ اپنی اُنگلی کا سِرا پانی میں بھگو کر میری زبان تر کر ے کیونکہ میَں اِس آگ میں تڑپتا ہوُں ۔
ابرہامؔ نے کہا بیٹا یاد کر کہ تُو اپنی زندگی میں اپنی اچھّی چیزیں لے چُکا اور اِسی طرح لعزرؔ بُری چیزیں لیکن وُہ یہاں تسلی پاتا ہے اور تُو تڑپتا ہے ۔ اور اِن سب باتوں کے سِوا ہمارے تُمہارے درمیان ایک بڑا گڑھا واقع ہے ۔ ایسا کہ جو یہاں سے تُمہاری طرف پار جانا چاہیں نہ جا سکیں اور نہ کوئی اُدھر سے ہماری طرف آ سکے ۔ اُس نے کہا پس اے باپ ! میَں تیری مِنت کرتا ہوُں کہ تُو اُسے میرے باپ کے گھر بھیج ۔ کیونکہ میرے پانچ بھائی ہیں تاکہ اُن کے سامنے اِن باتوں کی گواہی دے ۔ ایسا نہ ہو کہ وُہ بھی اِس عذاب کی جگہ میں آئیں ۔
ابرہامؔ نے اُس سے کہا اُن کے پاس موُسیٰ ؔ اور انبیا تو ہیں ۔ اُن کی سُنیں ۔ اُس نے کہا نہیں اے باپ اِبرہام ؔ ۔ ہاں اگر کوئی مُردوں میں سے اُن کے پاس جاۓ تو وُہ توبہ کریں گے ۔ اُس نے اُس سے کہا کہ جب وُہ موُسیٰ ؔ اور نبیوں ہی کی نہیں سُنتے تو اگر مُردوں میں سے کوئی جی اُٹھے تو اُس کی بھی نہ مانیں گے ۔ ‘‘
خُد ا آپکو برکت دے ۔ آمِین