زِندگی کئی بار اِنسان کو ایسے مقام پر لے آتی ہے جہاں اُسے کوئی بڑا اہم فیصلہ کرنا ہوتا ہے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہمیں ہر روز کئی فیصلے کرنا پڑتے ہیں ۔ کُچھ فیصلے زیادہ سوچ و بچار کے بغیر ہی کر لِۓ جاتے ہیں ۔ تاہم کُچھ فیصلوں کے لِے بُہت غور و فِکر درکار ہوتا ہے اور بڑے فیصلے کرنے میں بڑا احتیاط برتا جاتا ہے ۔ اب سوال یہ اُٹھتا ہے کہ کوئی فیصلہ کرتے وقت کِس بات کو سب سے زیادہ اہم سمجھا جانا چاہۓ ؟
خُدا نے جب اِنسان کو خلق کیا تو اُسے حقِ اِنتخاب بھی دِیا ۔ ہم اِس ذِمہ داری سے روُپوشی اِختیار نہیں کر سکتے اور نہ ہی اپنے اِنتخاب اور فیصلوں کے نتائج سے خوُد کو بری الزمہ قرار دے سکتے ہیں کیوُنکہ بُہت سے نتائج دائمی و ابدی اثرات پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں ۔
آئیے ہم بائبل کے کُچھ کِرداروں پر نظر کریں جِن میں سے کُچھ نے اچھے اور کُچھ نے بُرے اِنتخاب اور فیصلے کِۓ ۔ مُوسیٰ ؔ مردِ خُدا نے ’’ گُناہ کا چند روزہ لُطف اُٹھانے کی نِسبت خُدا کی اُمت کے ساتھ بد سلوُکی برداشت کرنا زیادہ پسند کِیا ۔ ‘‘ ( عبرانیوں ۱۱ باب ۲۵ آئت )
اُس نے اُس اِنعام پر نظر رکھی جو اِ س زِندگی میں نہیں بلکہ آئندہ کی زِندگی میں حاصِل ہونا ہے ۔ مسیِحی اِیمانداروں کی صُحبت یقیناً دانائی پر مبنی اِنتخاب ہے ۔ طُوفان سے پہلے ’’ خُدا کے بیٹوں نے آدمی کی بیٹیِوں کو دیکھا کہ وُہ خُوبصوُرت ہیں اور جِن کو اُنہوں نے چُنا اُن سے بیاہ کر لِیا ۔ ‘‘ ( پیدائش ۶ ۲ ) اُنہوں نےاپنی نفسانی خواہشوں پر مبنی اِنتخاب کِیا جو بعد میں اُنکے لِۓ بربادی کا سبب بنا ۔
’’ سو لُوط ؔ نے یردن ؔ کی ساری ترائی کو اپنے لِۓ چُن لیا ۔ ۔ ۔ اور سدوُم ؔ کی طرف اپنا ڈیرا لگایا ۔ ( پیدائش ۱۳ ۱ا ، ۱۲ ) زمیِن زرخیز تھی اور لوُطؔ معُاشی طور پر بڑا خُوشخال ہو گیا ۔ لیکِن جب سدوُؔم برباد کِیا گیا تو لوُطؔ کا سارا مال و اسباب بھی غارت ہو گیا ۔
بحیثیت ِ ایک نوجوان ، یوُسفؔ نے اِخلاقی طور پر کامِل اور دیانتدار رہنے کا ا ِنتخاب کِیا اور مِصر ؔ کی سلطنت میں اُسے اعلیٰ تریِن اعزازوں سے نوازا گیا ۔ ( پیدائش ۴۱ ۴۱ )
خُدا کے خادم یشوُعؔ نے بنی اِسرائیل کو دو ٹوک الفاظ میں خبردار کِیا کہ ، ’’ آج ہی تُم اُسے جِسکی پرستِش کرو گے چُن لو ( یشوُعؔ ۲۴ ۱۵ ، ۱۶ ) اب رہی میری اور میرے گھرانے کی بات سو ہم تو خُداوند کی پرستِش کریں گے ۔ ‘‘ تب لوگوں نے جواب دِیا ، کہ خُدا نہ کرے کہ ہم خُداوند کو چھوڑ کر اور معبوُدوں کی پرستِش کریں ۔ ‘‘ جب تک بنی اِسرائیل خُداوند کے ساتھ وفادار رہے وُہ ترقی و خو شخالی کی زِندگیاں گُزارتے رہے ۔
ایلِیاہؔ نبی کے وقت میں لوگ وُہ سارے عظیم کام جو خُدا نے اُنکے لِۓ کِۓ تھے بھوُل گۓ اور بُہت سے لوگ بعلؔ دیوتا کی پُوجا کرنے
لگے ۔ یہ بات خُداوند کے نزدیک نہائت ہی ناپسندیدہ اور افسوسناک تھی ۔ اِس اہم صوُرتِحال میں خُداوند نے ایلِیاہ ؔ کو اِستعمال کِیا تاکہ اُسکے ذریعہ وُہ اپنی قُوت اور قُدرت کا اِظہار کر سکے ۔ کوہِ کرمِلؔ پر اُس نے آسمان سے آگ کے لِۓ پُکارا اور آسمان سے آگ نازِل ہوُئی جِس نے اُسکی قُربانی کو بھسم کر دِیا ۔ اِس طرح سے اُس نے ثابِت کِیا کہ خُداوند ہی سچّا خُدا ہے ۔ پھِر اُس نے لوگوں سے پوُچھا ، ’’ تُم کب تک دو خیالوں میں ڈانواں ڈول رہو گے ؟ اگر خُداوند ہی خُدا ہے تو اُسکے پیرو ہو جاؤ اور اگر بعل ؔ ہے تو اُسکی پیروی کرو ۔ ‘‘ جب لوگوں نے دیکھا کہ آسمان سے آگ نازل ہوئی ہے تو وہ ’’ مُنہ کے بل گِرے اور کہنے لگے ، خُداوند ، وُہی خُدا ہے ! خُداوند ، وُہی خُدا ہے ! پہلا سلاطِین ۱۸ باب ۔
دانی ایلؔ ، وُہ نوجوان جِس نے اپنے دِل میں نیک عہد کِیا کہ وُہ بادشاہ کے گوشتیِن اور مُرّغن کھانوں سے اور اُسکی مے َ سے خُود کو ناپاک نہیں کرے گا ۔ ( دانی ایل ؔ ۱ ۸ ) نتِجتاً ، وُہ اور اُسکے تین دوست جنہوں نے اِس بات میں ا ُ س کا ساتھ دِیا ، بادشاہ اور خُدا کی نظر میں مقبُول ٹھہرے ۔ اگر اُنہوں نے یہ فیصلہ اور یہ اِنتخاب نہ کِیا ہوتا تو دانی ایلؔ کی شیروں کی ماند میں پھینکے جانے اور اُسکے تین دوستوں کے آگ میں ڈالے جانے کی سبق آموز اِمثال بائبل میں درج نہ کی جاتیں ۔
یسوُعؔ نے ایک آدمی کے بارے جِسکے دو بیٹے تھے تمثیل بیان کی ۔ دونوں میں سے ایک بٰٹے نے باپ سے وِراثت کا اپنا حِصّہ طلب کیا اور دوُردراز مُلک ( گُناہ کی سر زمین ) کو سدھا ر گیا ۔ اُس کا فیصلہ اور اِنتخاب درُست نہ تھا ۔ جب وُہ اپنا سارا مال و اسباب لُٹا چُکا تو اُسے احساس ہُوا کہ اُس سے کِتنی بڑی غلطی سر زد ہوُئی ہے ۔ اُس نے اپنے باپ کے گھر واپس جانے کا فیصلہ کِیا ۔ تصّور کریں کہ باپ اور بیٹے کے مِلاپ کی وُہ گھڑی کِس قدر خُوبصورت ہو گی ۔ ( لوُقا ۱۵ باب ۱۱ سے ۳۲ آیات )
یسوُعؔ کو گرِفتار کر کے پلاطُس ؔ کے سامنے پیش کِیا گیا ۔ یہوُدِیوں نے چِلاّ چِلاّ کر کہا ۔ ’’ اگر تُو اُسے چھوڑ دیتا ہے تو قیصرؔ کا خیر خواہ نہیں ۔ ‘‘ پیلاطُسؔ نے اپنے سا منے درپیش صُورتِحال پر غور کیا ۔ اُس نے قیصرؔ ( دُنیاوی مصلحتیں ) اور پھِر جلال کا خُداوند جو اُسکے سامنے کھڑا تھا کے بارے سوچا ۔ آخِر اُس نے اپنا فیصلہ اور اِنتخاب کِیا اور یسوُع ؔ کو مصلوُب ہونے کے لِۓ اُنکے حوالے کر دِیا ۔ ( یوُحناؔ ۱۹ باب )
دُنیا اور اِسکی آسائشوں کا اِنتخاب آخِر کار بربادی ہی کا باعث بنے گا ۔ ( ۲ پطرس ۳ با ب ۱۰ سے ۱۱ آیا ت) دُنیا اور اِسکی آسائشوں کی جُستجو کی بجاۓ خُدا کے بچوّں کا ساتھ دینا دانائی پر مبنی اِنتخاب ہے ۔ مسیح کی صُحبت میں وقت سرف کرنا ایک عاقِل دوست جو زِندگی کے ہر فیصلے میں ہماری راہنُمائی میں کرتا ہے ، کے ساتھ رہنے کے مُترادف ہے ۔
عزیز قارئین اور دوستو ، کیا آپ نے مسیح کی پیروی کرنے کا فیصلہ کر لِیا ہے ؟ کیا آپ نے اُسے اپنی زِندگی میں سب سے زیادہ عزیز بنا لیا ہے ؟ کیا اُسکے بتاۓ ہوُۓ زِندگی کے اصوُلوں کو آپ نے اپنا لِیا ہے ؟ کیا آپ نے اپنی زِندگی اُسکے سپرد کر دی ہے اور اُسکے سامنے اپنے گُناہوں کا اِقرار کرنے اور اُن سے کِنارا کش ہونے کا اِرادہ کر لِیا ہے ؟ کیا آپکے لِۓ اُسکا کلام بیش قیمتی اور ہر کِسی دوُسری کِتاب سے زیادہ پُرتاثیر ہے ؟ کیا آپ نے اپنے گھر میں یا کمرے میں یا کہیں اور کوئی ایسی جگہ الگ کر رکھی ہے جہاں آپ اپنے خُداوند کے سامنے دُعا یا اپنی زِندگی پر گہرے غوروفِکر کی غرض سے اور اُسکے ساتھ گُفتگوُ کرنے کے لِۓ جا سکیں ۔ اگر آپ نے اپنی زِندگی کو خُدا کی نذر کر دِیا ہے اور اُسے اپنا مالِک بنا لِیا ہے تو آپ ایک نہائت ہی مُبارک زِندگی گُزار رہے
ہیں ۔ یہ آسمانی بادشاہی کا پیش منظر ہے اور ہر روز صحیح اور راست فیصلے بلآخِر ہمیں ابدی خوُشیوں کی سر زمِین پر لے جائیں گے ۔ ضُدا آپکو برکت دے